ایک بچے کی دو مائیں ہیں
باب ۱: کابل کے پرامن دن
افغانستان کے صوبے ہلمند کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں، ایک چھ سالہ لڑکا شہنشاہ اپنے بھائی ابراہیم کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ اپنے دن کابل کے کھلے میدانوں میں پتنگیں اُڑاتے گزارتے۔ سورج آسمان کو سنہری نارنجی رنگ سے رنگ دیتا، جب وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، ہوا کے ساتھ دوڑتے، جو ان کی رنگین پتنگوں کو آسمان کی بلندیوں پر لے جاتی۔ ان کا گھر سادہ مگر محبت اور ہنسی سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے والد ایک محنتی آدمی تھے، جو اپنے خاندان کے لیے دن رات محنت کرتے۔

شہنشاہ کو یہ لمحات بہت عزیز تھے، یہ چھوٹے چھوٹے خوشی کے لمحے۔ وہ ان پہاڑوں اور سنہری کھیتوں سے باہر کی دنیا کو سمجھ نہ پاتا تھا۔ مگر یہ معصومیت جلد ہی ٹوٹنے والی تھی، اور اس کی زندگی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بدلنے والا تھا۔
باب ۲: روسی حملہ
شہنشاہ کے بچپن کا سکون ایک سیاہ صبح اچانک چھن گیا، جب روسی ٹینکوں کی آواز افق پر گونجنے لگی۔ شہنشاہ کے والد گھبراہٹ میں اس کے پاس آئے، چہرے پر خوف کے سائے تھے۔ “شہنشاہ، ہمیں جانا ہوگا، فوراً!” انہوں نے کہا۔
روسی حملہ شروع ہو چکا تھا، اور کابل کی پرامن دنیا پل میں بکھر گئی۔ دور دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگیں، اور آسمان دھوئیں سے بھر گیا۔ شہنشاہ کا گاؤں چند گھنٹوں میں تباہ ہو گیا۔ اس کا اسکول، جہاں وہ حرف اور اعداد سیکھتا تھا، ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ اس کا گھر گر گیا، اور اس کے ساتھ اس کا بچپن بھی۔
افراتفری میں،شہنشاہ اپنے خاندان کے کئی افراد سے بچھڑ گیا۔ اس کی ماں کی چیخیں، جب وہ جلتے ہوئے ملبے سے فرار ہو رہے تھے، ہمیشہ اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ اس نے اپنے بھائی کا ہاتھ تھاما، اور دونوں دوڑنے لگے۔ ان کی دنیا کا آخری نشان وہ ٹوٹی ہوئی پتنگ تھی، جسے شہنشاہ نے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔
باب ۳: ایک خطرناک سفر
جب ان کی دنیا راکھ میں بدل گئی، شہنشاہ کا خاندان جنگ زدہ افغانستان سے فرار ہوا۔ وہ دنوں تک پیدل چلتے رہے، سپاہیوں سے چھپتے، بمباری سے بچتے۔ ان کا سفر خطرے، خوف اور غیر یقینی سے بھرا ہوا تھا۔ کابل سے باہر کی دنیا ان کے لیے اجنبی اور خوفناک تھی۔
کئی دنوں کے سفر کے بعد، بغیر کھانے پینے کے، وہ پاکستان کی سرحد پر پہنچے۔ وہی ان کی آخری امید تھی۔ مگر سرحد پر پہنچ کر، ان کا سامنا ایک اور غیر یقینی صورتِ حال سے ہوا۔
وہاں،شہنشاہ کے والد کی ملاقات ایک پاکستانی افسر میجر شبیر سے ہوئی، جو شفقت اور وقار کا پیکر تھا۔ اس نے شہنشاہ کے والد کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا، “ہم تمہارے مسلمان بھائی ہیں، آؤ، اب تم محفوظ ہو۔ ہم تمہاری مدد کریں گے۔”
یہ وہ پہلی بار تھا جب شہنشاہ نے ایسے الفاظ سنے۔ وہ الفاظ اس کے دل میں گھر کر گئے۔ پاکستانی فوج کی مدد سے، شہنشاہ کا خاندان پاکستان میں داخل ہوا۔ جنگ ان کے پیچھے رہ گئی، مگر ایک نئی جدوجہد ان کے سامنے کھڑی تھی۔
باب ۴: مہاجر کیمپ
مہاجر کیمپ کی زندگی سخت تھی۔ ٹھنڈی راتیں گولیوں کی آواز سے گونجتی تھیں، اور دن خوراک اور پناہ کی تلاش میں گزرتے۔ شمشاد کی ماں بیمار ہو گئی، اور اس کا بھائی ابراہیم بھوک سے نڈھال ہو گیا۔ ان سب کے باوجود،شہنشاہ نے کابل کی یادوں کو سینے سے لگا رکھا—پتنگیں، ہنسی، گرمی۔
کیمپ میں ایک رات، جب وہ اپنے والد کے ساتھ آگ کے قریب بیٹھا تھا، ایک پرانے ریڈیو سے جنرل ضیاء الحق کی آواز گونجی:
“میں تم تمام افغانوں کے لیے، اپنی آخری خون کی بوند تک لڑوں گا۔”
شہنشاہ کا دل جذبات سے بھر گیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ پاکستانی فوج صرف فوج نہیں، ایک بھائی چارہ ہے، امید کی ایک کرن۔ اس کی پاکستان سے وابستگی مزید مضبوط ہو گئی۔
اب ۵: تربیت
جیسے جیسے شہنشاہ بڑا ہوا، وہ کیمپ کی کمیونٹی کا حصہ بنتا گیا۔ پاکستانی فوج نے افغان بچوں کو تربیت دینا شروع کی—صرف زندہ رہنے کی نہیں بلکہ عزت، وفاداری اور بھائی چارے کی۔ شہنشاہ کا چچا بھی انہی لوگوں میں شامل تھا جنہیں پاکستانی فوج نے افغان سرزمین کی آزادی کے لیے تیار کیا۔
شہنشاہ کو اپنے چچا پر فخر تھا۔ جب وہ افغانستان کی جنگ میں گیا، شہنشاہ کا دل خوشی اور غم سے بھرا ہوا تھا۔ اس رات کو وہ کبھی نہیں بھولا جب اس کے چچا نے رخصت ہوتے ہوئے کہا، “میرا فرض مجھے بلا رہا ہے۔”
وقت گزرتا گیا، اور پاکستان سے اس کا رشتہ مزید گہرا ہوتا گیا۔ مگر اس کے دل میں افغانستان کی یادیں، لوگ، ثقافت اور امن کے خواب ہمیشہ زندہ رہے۔
باب ۶: چچا کی شہادت
سات سال بعد، ایک خبر شہنشاہ کی دنیا کو ہلا گئی۔ اس کا چچا، جو افغانستان کی آزادی کے لیے لڑا تھا، شہید ہو گیا۔ پاکستانی فوج اور مجاہدین نے اس کی لاش واپس پاکستان پہنچائی۔ شہنشاہ اس کی قبر کے پاس کھڑا تھا، آنکھوں سے آنسو بہتے۔ یہ نقصان ناقابلِ بیان تھا۔
جب پاکستانی فوج نے اس کے چچا کو شہید کا درجہ دے کر سلامی دی، شہنشاہ نے قربانی اور بھائی چارے کا حقیقی مطلب سمجھا۔ اب اس کا رشتہ پاکستان سے صرف پناہ کا نہیں، ایک روحانی وابستگی کا تھا۔
باب ۷: مستقبل کی تعمیر
پاکستان میں شہنشاہ کی زندگی سنورنے لگی۔ اس نے اسکول میں داخلہ لیا، وائرنگ کا کورس کیا، اور ایک ماہر الیکٹریشن بن گیا۔ اس کی محنت رنگ لائی، اور وہ کامیاب کاروباری شخصیت بن گیا۔
مگر دل کا ایک حصہ ہمیشہ افغانستان کے لیے تڑپتا رہا۔ پاکستان میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود، وہ اپنے گمشدہ وطن کو نہیں بھولا۔
باب ۸: 2025 کا اعلان
پھر 2025 کا وہ دن آیا، جب پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی کا اعلان کیا۔ شمشاد کی بنائی ہوئی دنیا لرزنے لگی۔
وہ برسوں پاکستان میں رہا، اس کی سوچ، اس کی عادتیں سب پاکستانی ہو چکی تھیں۔ اس کے بڑوں کی قبریں اب پاکستان میں تھیں۔ مگر اب، سب کچھ بدلنے لگا تھا۔
شہنشاہ کے دل میں سوالات تھے۔ کیا فوج، جس نے اسے گلے لگایا تھا، اب بدل چکی ہے؟ کیا یہ حکومت کا فیصلہ تھا، یا لوگوں کے دلوں میں کچھ بدل گیا تھا؟
وہ اس اسلامی فوج کو غلط نہیں سمجھ سکا، مگر واپسی کا دکھ ناقابلِ برداشت تھا۔ اس نے سوچا، “اگر دشمن ایک، مسئلے ایک، مذہب ایک ہے، تو زمین کیوں ایک نہیں؟”
اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، صرف خاموشی اور درد۔
باب ۹: آخری جدوجہد
غیریقینی کے اس موڑ پرشہنشاہ نے خود سے کہا، “مجھے نہیں معلوم کہ صحیح کیا ہے۔ مگر میں دونوں ملکوں سے محبت رکھوں گا۔ اپنے چچا کی قربانی، اور بھائی چارہ ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہے گا۔”
فیصلہ آسان نہ تھا۔ مگرشہنشاہ جانتا تھا، اس کی شناخت کسی سرحد یا قومیت سے نہیں جڑی۔ اس کی شناخت ان محبتوں، قربانیوں اور تعلقات سے بنی تھی جو اس نے پاکستان میں محسوس کیے۔
وقت بدل رہا تھا، مگر اس کے دل کی روشنی، دونوں ملکوں کی محبت سے جگمگا رہی تھی۔ اس کا سفر طویل اور دکھ بھرا ضرور تھا، مگر یہ قربانی، محبت اور ناقابلِ شکست بھائی چارے کی کہانی بھی تھی۔
میجر شبیر اب ریٹائر ہو چکے تھے اور شہنشاہ خان کے دوست بن چکے تھے۔
آج کی تصویر: شہنشاہ اور میجر شبیر ساتھ کھڑے ہیں۔