تین عثمانی سپاہیوں کی آخری جنگ

تین عثمانی سپاہیوں کی آخری جنگ

جنگ ہار دی گئی تھی۔ کبھی عظیم عثمانی سلطنت ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی، اس کی شان و شوکت غروب ہوتے سورج کی مانند ماند پڑ چکی تھی۔ دشمن پہلے ہی فتح حاصل کر چکا تھا اور اب وہ آخری باقی ماندہ عثمانی چوکیوں میں سے ایک کو گھیرے ہوئے تھے، جہاں تین سپاہی آخری دفاع میں کھڑے تھے۔ لیاقت، فارمان، اور محمد نبی صرف جنگجو نہیں تھے، وہ خاندان بھی تھے۔ لیاقت اور فارمان بھائی تھے، اور محمد نبی ان کا چچا زاد تھا۔ وہ کئی جنگوں میں ایک ساتھ لڑ چکے تھے، مگر اب انہیں سب سے مشکل لمحے کا سامنا تھا۔

چوکی بہت چھوٹی تھی، ہفتوں کے حملوں کے بعد مشکل سے قائم تھی۔ سامان تقریباً ختم ہو چکا تھا اور سپاہی تھک چکے تھے۔ لیاقت، جو ان میں سب سے اعلیٰ افسر تھا، جانتا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک نہیں رک سکتے۔ اس نے فارمان اور محمد نبی کو اپنے قریب بلایا اور ان کی آنکھوں میں دیکھا۔

“تمہیں جانا ہوگا،” اس نے بھاری دل سے کہا۔ “واپس گاؤں چلے جاؤ۔ یہاں کوئی فتح نہیں، اگر تم رکے تو مارے جاؤ گے۔”

فارمان کی آنکھوں میں تذبذب تھا۔ “بھائی، ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔”

محمد نبی نے سر ہلایا۔ “ہم ساتھ لڑیں گے، ساتھ مریں گے۔”

 

لیاقت نے دونوں کے کندھوں پر مضبوطی سے ہاتھ رکھا۔ “تمہیں زندہ رہنا ہوگا۔ ہمارا گاؤں تمہاری ضرورت ہے۔ اگر ہم سب یہاں مر گئے، تو ہمارے خاندان کی حفاظت کون کرے گا؟ ہماری میراث کون سنبھالے گا؟”

خاموشی چھا گئی۔ رات کے اندھیرے میں دشمن کی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔ فارمان اور محمد نبی نے ایک دوسرے کو دیکھا، وفاداری اور عقل کے درمیان پھنسے ہوئے تھے۔ آخرکار، بوجھل دل کے ساتھ، انہوں نے سر ہلا دیا۔

“ہم واپس آئیں گے،” فارمان نے وعدہ کیا۔

لیاقت نے ایک مدھم مگر مضبوط مسکراہٹ دی۔ “تو جلدی کرنا۔”

رات کے اندھیرے میں، فارمان اور محمد نبی دبے پاؤں روانہ ہو گئے۔ ہر قدم ان کے دل میں بوجھ کی مانند محسوس ہو رہا تھا، مگر وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ وہ تباہ شدہ زمین سے گزرتے رہے، دشمن کی گشتی فوجوں سے بچتے رہے، ان کے دل میں لیاقت کی فکر بوجھ بنی رہی۔

آخری جنگ

دو دن بعد، دشمن نے حملہ کر دیا۔

لیاقت اور اس کے سپاہیوں نے بے خوف ہو کر مقابلہ کیا، ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ گولیوں کی گرج فضا میں گونج رہی تھی۔ دھواں اور گرد ان کی آنکھوں میں چھا گئے۔ لیاقت اپنی فوج کے ساتھ ثابت قدمی سے لڑا، اس کی تلوار دشمنوں کو چیرتی رہی، اس کی پستول اس وقت تک فائر کرتی رہی جب تک کہ گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔ مگر وہ تعداد میں کمزور تھے۔ ایک ایک کر کے اس کے سپاہی شہید ہو گئے۔

ایک گولی لیاقت کے کندھے میں لگی، اسے زمین پر گرا دیا۔ اس نے دانت پیسے اور خود کو سنبھال کر کھڑا ہونے کی کوشش کی، مگر ایک اور دھماکے نے اسے دور پھینک دیا۔ اس کی نظر دھندلا گئی، جسم درد سے چیخ اٹھا۔ اندھیرا چھانے سے پہلے، جو آخری منظر اس نے دیکھا وہ دشمن کا جھنڈا تھا، جو اس کی چوکی کے ملبے پر لہرایا جا رہا تھا۔

واپسی کا سفر

ادھر، فارمان اور محمد نبی گاؤں کی طرف جا رہے تھے جب ایک بےچینی کا احساس ان کے دلوں میں چھا گیا۔ وہ یک دم رک گئے اور پیچھے دیکھا، اس جگہ جہاں وہ اپنے بھائی کو چھوڑ آئے تھے۔

“وہ اب بھی لڑ رہا ہے،” فارمان نے آہستہ سے کہا۔

محمد نبی نے مٹھی بھینچ لی۔ “ہمیں واپس جانا ہوگا۔”

بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، وہ پلٹ گئے۔ انہوں نے اپنی رفتار تیز کر دی، خود کو پہلے سے زیادہ دھکیلتے رہے۔ بھوک اور تھکن اب کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ بس ایک ہی چیز اہم تھی— لیاقت تک پہنچنا۔

جب وہ چوکی پر پہنچے، تو ان کے سب سے بڑے خوف حقیقت بن چکے تھے۔ میدان جنگ خاموش تھا۔ لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں، عثمانی پرچم دشمن کے قدموں تلے روند دیا گیا تھا۔ ملبے سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا۔

“لیاقت!” فارمان نے چیخ کر پکارا، اس کی آواز بے قراری سے لرز رہی تھی۔

محمد نبی نے گرد و نواح میں نظریں دوڑائیں، بے صبری سے کسی حرکت کی تلاش میں۔ پھر، اسے زندگی کی ایک مدھم جھلک نظر آئی— ایک ہلکی، لرزتی ہوئی سانس۔

“یہاں!”

وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچے۔

لیاقت زندگی کی آخری سرحد پر تھا۔ اس کی وردی خون میں ڈوبی ہوئی تھی، اس کا جسم چوٹوں سے چور تھا۔ مگر جب اس نے آنکھیں کھولیں اور انہیں دیکھا، تو اس کے ہونٹوں پر ایک کمزور مسکراہٹ آئی۔

“تم واپس آ گئے،” اس نے دھیرے سے کہا۔

فارمان اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ “ہم تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔”

محمد نبی نے جلدی سے اس کے زخموں کا جائزہ لیا۔ “یہ کمزور ہے، مگر ہم اسے بچا سکتے ہیں۔”

بڑی محنت کے ساتھ، انہوں نے لیاقت کو اپنے کندھوں پر اٹھایا۔

واپسی کا راستہ

گاؤں واپسی کا راستہ خطرناک تھا۔ وہ رات کے اندھیرے میں آگے بڑھتے رہے، دشمن کی گشتی فوجوں سے بچتے رہے۔ لیاقت بار بار ہوش اور بے ہوشی کے درمیان جھولتا رہا، اس کی سانس مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ فارمان اور محمد نبی اسے مضبوطی سے تھامے رہے، اسے کسی بھی صورت نہ چھوڑنے کا عزم کیے ہوئے۔

کئی دنوں کی سختیوں کے بعد، وہ آخرکار اپنے گاؤں پہنچ گئے۔ ان کے خاندان والے انہیں دیکھ کر دوڑ پڑے، ان کی آنکھوں میں خوشی اور سکون کے آنسو تھے۔ لیاقت کو فوری طور پر گھر لے جایا گیا اور اس کا علاج کیا گیا۔ آہستہ آہستہ، اس کی طاقت بحال ہونے لگی۔

جنگ ختم ہو چکی تھی، مگر ان کا رشتہ ہمیشہ کے لیے اٹوٹ رہنے والا تھا۔ وہ ہارے ہوئے جنگجو نہیں تھے، بلکہ وہ بھائی تھے جنہوں نے خوف کے بجائے وفاداری اور محبت کو چنا تھا۔

آخر میں، انہیں جنگ نے نہیں، بلکہ اس وعدے نے مضبوط بنایا جو انہوں نے ایک دوسرے سے کیا تھا۔

اور یہ وعدہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top
Energy saving and home made tips