رات کے اندھیرے میں سنسان سڑک پر ایک گاڑی دھیرے دھیرے چل رہی تھی۔ احمد، جو ایک نوجوان تاجر تھا، ایک طویل سفر کے بعد واپس اپنے گھر جا رہا تھا۔ راستہ لمبا اور ویران تھا، اردگرد صرف درختوں کی قطاریں اور جھاڑیاں تھیں۔ اچانک، اس کی گاڑی نے ایک جھٹکا کھایا اور بند ہو گئی۔
احمد نے حیرانی سے گاڑی کا بونٹ کھولا اور انجن کا جائزہ لیا، مگر کچھ خاص مسئلہ سمجھ نہ آیا۔ اس نے فون نکال کر کسی کو کال کرنے کی کوشش کی، لیکن یہاں سگنل نہ ہونے کے برابر تھا۔
اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو کچھ فاصلے پر ایک پرانی، سنسان عمارت نظر آئی۔ وہ ایک پرانی مقبرہ معلوم ہو رہی تھی۔ احمد نے سوچا کہ شاید وہاں کسی سے مدد مل جائے۔
وہ آہستہ آہستہ مقبرے کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچا، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ دروازہ زنگ آلود تھا، مگر ہلکے سے دھکے سے کھل گیا۔ اندر مکمل تاریکی تھی۔
اس نے موبائل کی فلیش لائٹ جلائی اور آگے بڑھا۔ دیواروں پر پرانی تحریریں لکھی ہوئی تھیں اور ہر طرف دھول جمی تھی۔ اچانک، اس کے پیچھے دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ احمد نے چونک کر پیچھے دیکھا اور جلدی سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ جیسے کسی نے جکڑ لیا ہو۔
اچانک، اندر ایک ہلکی سی سرگوشی سنائی دی، “چلے آؤ… تمہارا انتظار تھا…” احمد کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
وہ پلٹ کر بھاگنا چاہتا تھا کہ اچانک اس کے سامنے ایک سائے نے جنم لیا۔ وہ ایک انسانی شبیہہ تھی، مگر اس کا چہرہ دھندلا تھا۔ آنکھوں کے بجائے سیاہ کھائیاں تھیں۔
“تم نے میری نیند خراب کی ہے… اب یہاں سے نہیں جا سکتے…” سایہ سرگوشی میں بولا۔
احمد نے کانپتے ہاتھوں سے ایک قدم پیچھے لیا، مگر زمین جیسے اس کے قدم جکڑ رہی تھی۔ سایہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اسی لمحے، مقبرے کے ایک کونے سے ایک اور آواز ابھری، جیسے کسی نے چیخ ماری ہو۔ احمد نے آخری کوشش کے طور پر دروازے کی طرف دوڑ لگائی۔ اچانک دروازہ خود بخود کھل گیا اور وہ دھڑام سے باہر گر پڑا۔
باہر نکلتے ہی اس نے مڑ کر دیکھا، مگر وہاں مقبرے کی جگہ صرف ایک سنسان قبرستان تھا۔ عمارت جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
اس نے جلدی سے گاڑی کی طرف دوڑ لگائی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ گاڑی خود بخود اسٹارٹ ہو چکی تھی۔ احمد نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فوراً رفتار بڑھائی اور وہاں سے نکل گیا۔
لیکن جب وہ بیک مرر میں دیکھ رہا تھا، تو اسے وہی سایہ اپنی پچھلی سیٹ پر بیٹھا نظر آیا۔
“اب تمہارا سفر ختم نہیں ہوگا…” ایک سرگوشی ہوا میں گونجی۔
رات کی سڑک پر، احمد کی چیخیں اندھیرے میں گم ہو گئیں۔